حکومتی اداروں کا گجرنالے سے قبضہ ہٹا کر، قریبی جیفکو پارک پر قبضہ جاری۔ علاقہ مکین پارک سے محروم، آلودگی سے پریشان۔

اکیسویں صدی میں سائنسی ترقی کے باعث کمپیوٹر اور دیگر برقی آلات کی بھر مار سے شہری زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ زیادہ تر شہری اپنا وقت گھر کے اندر گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے شہریوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور فطرت سے تعلق ٹوٹتا جا رہا ہے۔

شہر میں پروان چڑھتے اس رجحان کو شکست دینے کے لیے شہری زندگی کو بہتر بنانے اور شہریوں کو صاف ستھرا، آلودگی سے پاک ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری شہری انتظامیہ اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کا بہترین ذریعہ پبلک پارکس اور گرین اسپیس ہیں۔

جیفکو گراؤنڈ اور اس کی کہانی ۔

جیفکو پارک – ۲۰۲۱ سے لے کر ۲۰۲۲.

مگر کراچی کے پارک کہیں قبضے کا شکار ہیں تو کہیں ان میں غیر قانونی طور پر فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں آیسا ہی ایک پارک کراچی نارتھ ناظم آباد بلاک ایل میں واقع جیفکو گراؤنڈ کو کنسٹرکشن سائٹ یعنی تعمیراتی مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کے باعث جیفکو گراؤنڈ کے اطراف رہنے والے شہری پارک کو صحت بخش مقاصد کے استعمال سے محروم ہو رہے ہیں ۔

جبکے کراچی کے ماسٹر پلان کے مطابق نارتھ ناظم آباد بلاک ایل میں جیفکو پارک قائم کیا گیا تھا تاکے اطراف میں رہنے والی ابادی، جو کے ۲۰۱۳ کے

 اعدادوشمار کے مطابق ۱۰ ہزار سے زائد ہے، س پارک سے مفید ہو۔ مگر ستمبر ۲۰۲۱ سے پارک تک عوام کی رسائی روک دی گئی تھی اور کنکریٹ پلانٹ لگا دیا گیا اور پارک میں کنکریٹ بنانے کے سلسلے میں بھاری مشینری نصب کردی گئی۔ مقامی افراد کا کہناہے کے پارک میں 24 گھنٹے کام ہورہا ہے جس کی وجہ سے علاقہ مکینوں کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔

یہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ اسکیم نمبر 2 کا ماسٹر پلان / لے آؤٹ پلان اس انداز سے تیار / ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جس میں سکیم نمبر 2 کے ہر بلاک میں پارکس، گراؤنڈز، مساجد کی سہولیات کے لیے زمین / پلاٹوں کا ٹکڑا مختص کیا گیا ہے۔ درخواست گزار بھی سکیم نمبر 2 کے بلاک-ایل اور ایچ کے رہائشی ہیں اور بلاک-ایل میں کی قریب لنڈی کوتل چورنگی (سبجیکٹ پارک) بھی واقع ہے اور قریب کے رہائشیوں کی سہولت کے لیے پودے، پھول، بینچ اور جھولے لگائے گئے تھے اور اسے طویل عرصے سے حکام یعنی کراچی میونسپل کارپوریشن (کے،ایم،سی) اور پارکس ہیریٹیج ڈپارٹمنٹ کی طرف سے تیار اور برقرار رکھا گیا تھا۔ تاہم آہستہ آہستہ جیفکو گراؤنڈ سمیت باقی پارکس بھی عدم دلچسپی کا باعث بنے۔ بلاک-ایل اور ایچ کے قریبی رہائشی سبجیکٹ پارک میں دستیاب سہولیات سے استفادہ کرتے تھے اور بچے سبجیکٹ پارک میں اپنے والدین کے ساتھ شام کا لطف اٹھاتے تھے۔

جیفکو گراؤنڈ کنکریٹ پلانٹ میں تبدیل۔

جیفکو گراؤنڈ پر قبضہ ہونے اور کنکریٹ پلانٹ لگنے کے بعد مقامی رہائشیوں نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جس پر عدالت نے قانونی درخواست منظور کی اور گذشتہ ہفتے اس کیس پر سماعت ہوئی۔ درخواست گزار محمد امین خان نے موقف اختیار کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کے کراچی کی سٹی پلاننگ اتھارٹی ، کراچی دوولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ۱۹۵۷ میں قائم کیا گیا تھا اور اس اتھارٹی کا مقصد کراچی کے پارکس کی حفاظت کرنا تھا۔ تاہم وہ ناکام ہے جبکے پارک میں کنکریٹ پلانٹ لگانے والی کمپنی ۱۹۶۶ میں قراقرم ہائی وے کی تعمیر کے لیے عمل میں لائی گئی تھی اور وہی کمپنی نے پارک کی زمین پر اور ابادی کے درمیان کنکریٹ پلانٹ لگایا ہے۔ جس کے باعث دھول مٹی دھواں سے بیمار افراد اور بزرگوں کے لیے صحت سے متعلق سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس پر عدالت نے درخواست گزاروں کو سننے کے بعد ریمارکس دیتے ہوئے کہا یہ پیچیدہ کیس نہیں،حکم امتناع کے بجائے ناظر کی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ ہی کردینگے،عدالت۔

عدالتی کاروائی اور اسٹے آرڈر۔

عدالت نے پارک میں موجود کنکریٹ پلانٹ کو فلفور بند کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کے اگلی سماعت پر انتظامیہ عدالت کو بتائے کے یہ پلانٹ کس کی اجازت سے لگا۔ ساتھ ہی عدالت نے اسسٹنٹ کمشنر سمیت متعلقہ ادروں کو نوٹسسز جاری کئے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا یہ صرف جیفکو گراؤنڈ کا مسئلہ ہے یا پھر شہر بھر میں ایسے عوامی پارکس حکومتی عدم دلچسپی کے باعث کاروباری سرگرمیوں کے لیے استعمال ہورہے ہیں؟

پبلک پارک اور اس کی اہمیت

مشاہدے و تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پبلک پارک تک کسی بھی صورت میں رسائی نہ ہونے کے باعث شہریوں میں موٹاپے، ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب، شوگر و دیگر جسمانی بیماریوں کے ساتھ ذہنی تناؤ، ڈپریشن و دیگر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔

اور ایک طرف کراچی کی انتہائی غیر صحت بخش ائیر کوالٹی اور سموگ کی وجہ سے عوام پریشان ہے، اور دوسری طرف شہر کے بیچ و بیچ پارک پر قبضہ کرکے ایسا کام کیا جارہا ہے جس سے فضا اور خراب ہو رہی ہے۔ جبکہ پارک تازی ہوا کی نشانی ہوتا ہے۔ سموگ سے سانس لینے میں تکلیف اور دمہ جیسی دیگر بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔

ایسا شہر جہاں عوام کو پبلک پارک تک رسائی فراہم ہے وہاں لوگوں کی ذہنی و جسمانی صحت قدرے بہتر رہتی ہے۔ جس کی مثال ہم مغربی ملکوں سے لگا سکتے ہیں، امریکا کا شہر نیویارک ویسے تو اپنی جگمگاتی روشنیوں اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ عمارات اور جدید طرزِ زندگی کی وجہ سے دنیا میں مقبول ہے مگر اس شہر کے بیچوں بیچ ۸۴۳ ایکڑ پر محیط ایک وسیع و عریض سینٹرل پارک بھی ہے، جو شہریوں کو تھوڑی دیر کے لیے شہر کی مصروف زندگی سے بالکل مختلف تازہ ہوا کے ساتھ خوشگوار ماحول فراہم کرتا ہے۔

اگر انفرادی سطح پر بات کریں تو ایسے افراد جو دن میں اپنا کچھ حصہ پبلک پارک و تازہ کھلی فضا میں اپنا وقت گزراتے ہیں ان میں جسمانی و نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کا تناسب انتہائی کم پایا جاتا ہے۔

لیکن اگر کراچی کے پبلک پارکس کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو بیشتر پارک کچرا کنڈی کامنظر پیش کر رہے ہیں۔ شہری ان میں جانے تو دور کی بات ان کے پاس سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے ۔ ایسے تمام پارک نشے کے عادی افراد کی آمائش گاہ بنئے ہوئی ہے یا پھر یہ پارکس نو عمر لڑکوں کے لیے سگریٹ نوشی کرنے کے محفوظ مقام کے طور پر استعمال ہوتے ہیں یا پھر یہی پارکس کاروباری سرگرمیوں کے لیے استعمال ہورہے ہیں

کراچی جیسے وسیع و عریض شہر اور کثیر آبادی کے اعتبار سے ہر تھوڑے فاصلے اور ہر مرکزی علاقے میں پبلک پارک ہونا انتہائی ضروری ہے مگر حکومتی عدم توجہی کے سبب ہمارے محلے پبلک پارک جیسی ضروری سہولت سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے شہری اپنے گھروں تک محدود رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

جبکہ شہر میں بچے کچے پارکس کی صورت حال انتہائی ابتر ہے جس کی بڑی وجہ پارکس اور سبزے کا مناسب خیال نہ رکھنا ہے اور پھر اسی تناظر میں کاروباری سرگرمیوں کے لیے استعمال میں لانا ہے

یہ ایک جیفکو گراؤنڈ کی کہانی ہے ایسی ہی کہانی کراچی کا ہر پارک خود سناتا ہے۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply