ماحولیاتی تبدیلیوں کا کرہ ارض کی ارتقاء پر اثر۔

ماحولیاتی تبدیلی ہمیں تباہ کر رہی ہے
اربوں برس سے قائم ہماری زمین نجانے کن کن تبدیلیوں سے گزری ہے، یہ کبھی گرم گیسوں کا غبارہ رہی ا ور کبھی اس نے کروڑوں برس برف کی چادر اوڑھے رکھی،اس تلاطم خیز تاریخ نے ہر دور میں اس کے باسیوں پر گہرے اثرات مرتب کئے،اس کے درجہ حرارت میں اضافے اور کمی نے یہاں پودوں، جانوروں اور انسانی تاریخ کو ہمیشہ متاثر کیا۔اگرچہ گزشتہ چار لاکھ برس کے دوران یہ درجہ حرارت آج کی بہ نسبت چار تا آٹھ درجے کم رہا لیکن کئی دفعہ زیادہ حدت کے دورانیے بھی آئے۔ ان تبدیلیوں نے ہمیشہ بارشوں کا نظام متاثر کیا، وسیع وعریض صحراؤں کی ہیٔت تبدیل کی اور سرسبز و شاداب میدان تشکیل دئیے۔

برفانی پہاڑپگھلا ئے جس سے سمندروں کی سطح بلند ہوئی، سیلاب آئے اور پھر یہ سمندر چٹیل میدانوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ زمانہ قبل از تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والی یہ تبدیلیاں فیصلہ کرتی رہیں کہ جنگلات اور خوردنی پودے کہاں پیدا ہوسکتے ہیں اورچرواہوں کو سبزہ زار آخر کہاں مل سکتے ہیں ۔ہر دور کے پودے، جانور اور انسانی آبادیاں خود کو نئے ماحول میں ڈھالتی رہیں ، ہجرت کرتی رہیں اور مرتی گھٹتی رہیں۔ بالآخرایک لاکھ ساٹھ ہزاربرس پہلے ایک بڑا واقعہ پیش آیا اور قدرت کے ستائے انسان نے افریقہ سے کہیں باہرنکلنے کا فیصلہ کرلیا۔انسانی آبادیاں افریقہ سے نکلیں اور دنیا بھر میں پھیلنے لگیں، ایک لاکھ ٣٥ہزار سال پہلے جب خطہ صحارا بہت سرسبز تھا، انسان وادی نیل اور بحیرۂ روم کے مشرقی علاقوں کی جانب کوچ کر گیا، پھر ہزاروں برس بعد ان کے ایک گروہ نے افریقہ سے نکل کر باب المندب کے راستے جزیرہ نما عرب کو ہجرت کی۔کہا جاتا ہے کہ آج کرۂ ارض پر موجود تمام انسان اسی گروہ کی اولاد ہیں۔یہاں سے وہ آبنائے ہرمز عبور کرتے ہوئے ایشیا میں داخل ہوئے۔ کچھ ہزار سال بعد ان کے ایک گروہ کو یہ جگہ بھی پسند نہیں آئی اور اس نے جنوب مشرقی ایشیا اور چین کے خطوں کے لئے سامان باندھا، نسل درنسل یہ کٹھن سفر جاری رہا اور انسان آسٹریلیا اور نیو گنی سے ہوتا ہواجنوب مغربی ایشیا ، لائبیریا اور بالآخر امریکہ تک پہنچ گیا۔ دسیوں ہزار برس پر محیط انسان کے اس کٹھن سفر کی بڑی وجہ اس کرۂ زمین پر ہونے والی مختلف ماحولیاتی تبدیلیاں تھیںاور یہ ماحولیاتی تبدیلی گزشتہ چند برسوں سے ایک مرتبہ پھر خاص موضوع بنی ہوئی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حدت میں اضافے کے عنوانات سے تحقیقات ہورہی ہیں ، کانفرنسز اور سیمینارز منعقد ہورہے ہیں اور کرہ ارض کو شدید ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لئے معاہدے ہورہے ہیں۔

ماحولیاتی سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ ایک صدی میں عالمی درجہ حرارت میں ۲.۵ تا ١٠ درجے فارن ہائیٹ اضافہ متوقع ہے جس سے شدید موسمی تغیّرات پیدا ہوں گے۔ سائنسدانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی اس کرہ زمین کا خاصہ رہی ہے اور اس کی پیدائش سے لے کر اب تک یہاں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں لیکن اس کی رفتار نہایت سست رہی ہے، تاہم ١٨ویں اور ١٩ویںصدی میں صنعتی انقلاب آنے کے بعد عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں تقریباً ٣٠فیصد تک تیزی آئی ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ماحولیات کے عالمی ادارے آئی پی سی سی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں عالمی درجہ حرارت کو ۱.۵ سیلسئیس تک محدود رکھنے پر زور دیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس مقصد کے لئے حکومتوں کو ٢٠٣٠تک گرین ہاؤس گیسوںکے اخراج میں ٤٥فیصد تک کمی لانا ہوگی۔تاہم ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گزشتہ چار سال میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی ہونے کے بعد اس میں اب پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ دسمبر میں پولینڈ میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کانفرنس میں ماہرین نے خبردار کیاکہ زمین ‘نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔انھوں نے کہاکہ بچاؤ کے اقدامات کرنے میں کوئی بھی تاخیربہت نقصان دہ ہوگی۔ یہ نقصان کیا ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمالیہ اور ہندوکش کے سلسلہ ہائے کوہ میں واقع گلیشیئرز کو لاحق خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی موجودہ رفتار پر قابو نہیں پایا گیا تو ان گلیشیئرز کا دو تہائی حصہ ختم ہوسکتا ہے، ماہرین کے مطابق کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کے پہاڑ ایک صدی سے بھی کم عرصے میں خالی چٹانوں میں تبدیل ہوجائیں گے،فضائی آلودگی اور بڑھتے درجہ حرارت سے برف پگھلنے کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ ان تبدیلیوں سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، بھارت، بھوٹان، چین ، میانمار اور نیپال براہ راست متاثر ہوں گے۔ واضح رہے کہ ہمالیہ اور ہندوکش کے گلیشئیرز دنیا کے اہم ترین دریاؤں، سندھ، گنگا، ییلو، می کانگ اور اراوادی کو پانی مہیا کرنے کے علاوہ اس خطے کے اربوں لوگوں کے لئے خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدن کا بھی ذریعہ ہیں۔ ایک اور سائنسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کرہ ارض پر موجود٤٠فیصد حشرات کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ خیال رہے حشرات الارض انسانی زندگی کے لئے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں اور یہ٧٥فیصد تخم کاری کا باعث بنتے ہیں ،یہ مٹی کو زرخیز بناتے ہیں اور اس میں موجود ضرر رساں کیڑوں کی تعداد کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی کی صرف دو تباہ کن مثالیں ہیں، اس وقت پوری زمین ماحولیاتی تبدیلی کی زد میں ہے، اور روز اس سے متعلق قدرتی آفات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

قدرتی وجوہات کے علاوہ اس ماحولیاتی تبدیلی کی چند بڑی وجوہات ایسی بھی ہیں جن کا ماخذ انسان کی اپنی سرگرمیاں ہیں، مثال کے طور پراس وقت ہوا اور سمندروں کے پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ کوئلہ، تیل اور گیس جلاکر توانائی کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان زراعت یا آبادیاں بسانے کے لئے جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ کر رہا ہے اور اس کی صنعتی سرگرمیوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ان عوامل کے باعث ہماری آب ہوا آلودہ ہورہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال٢٠١٢میں ہر نو اموات میں سے ایک موت آلودہ ہوا سے بننے والی بیماریوں کے باعث ہوئی ہے۔جنگلات کے بے دریغ کٹاو کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ آج ہماری زمین کا صرف تیس فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے، تقریباً١١٠٠٠برس قبل جب بنی نوع انسان زراعت کا فن سیکھ رہا تھا اس وقت اس کی زمین کا ٦٠فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا،اب یہ حصہ گھٹ کر نصف رہ چکا ہے۔ ۱۵ نومبر ۲۰۲۲ کو انسانی آبادی ۸ ارب بتائی جارہی ہے جو ٢٠٥٠میں بڑھ کر تقریباً١٠ارب ہوجائے گی۔ ایک طرف گلیشئیرز پگھل رہے ہیں دوسری طرف آبادی میں بے دریغ اضافہ ہورہا ہے،نتیجتاً پانی جیسی بنیادی ضرورت تیزی سے کم ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہم مستقبل میں پانی پر جنگیں لڑیں گے۔ اس کے علاوہ جوہری توانائی کے استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، اس توانائی کی افادیت اپنی جگہ لیکن اس سے خارج ہونے والی ریڈیائی لہریں ہمارے ماحول کو زہرآلودکررہی ہیں۔ ہمارے شہر بھی روزبروز پھیل رہے ہیں،صنعتی انقلاب کے بعد عوام کی شہروں کی جانب نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اب ہیوی ٹریفک، گاڑیوں اور کارخانوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحولیاتی اورصحت کے مسائل پیدا کرہی ہے۔ لیکن۔۔۔۔”میں کیا کروں؟یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وقت کی ضرورت ہے، زمانے کی دوڑ ہے، اس میں بھاگنا پڑتا ہے، میں اس میں اکیلے کچھ نہیں کرسکتا، آخر میں کیا کرسکتا ہوں میں تو بہت مصروف ہوں۔۔۔”یہ وہ جملے ہیں جو ہم اکثر اس وقت ادا کرتے ہیں جب ہمارے سامنے کوئی گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات اور اثرات کی بات کرتا ہے۔ ہم چند لفظ کہہ کر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوجاتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ ہم اپنے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے کون سا کل تعمیر کر رہے ہیں؟؟؟سائنسدانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی لیکن ہم بطورانسان اپنی سرگرمیوں سے اس کی رفتار اور منفی اثرات پر کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلی ہر ایک کا مسئلہ ہے اور اسے صرف کوئی ادارہ، حکومت یا سائنسدان نہیں بلکہ ہم سب مل کر حل کریں گے۔ ہمیں چند کام ضرور کرنے چاہئیں،ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں میں ان جگہوں پر پودے لگائیں جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہو، گھروں اور دفاتر میں نصب اے سی فلٹرز کو صاف رکھیں، گیزر کو کور سے ڈھانپ کر رکھیں، کپڑے دھونے کے لئے ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں، گاڑیوں کا کم سے کم استعمال کریں اور یقینی بنائیں کہ انجن اچھی حالت میں ہو ، واک ، بائیسیکل یاپبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوںکوترجیح دیں،اپنے موبائل فونز اور دیگر اپلائنسز کے چارجرز بلاضرورت آن نہ رکھیں، کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپ کا استعمال کریں، پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کریں اور خود بھی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے اثرات پوری طرح سے سمجھیں ، معاشرے میں بھی اس کے بارے میں آگاہی پھیلائیں اور آخر میں ایک منظم طریقے سے اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ جلد از جلد حقیقی معنوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور عملی اقدامات کریں۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply