کسان پریشان سورج مکھی کے بیج 17 اور 18 ہزار روپے فی ایکڑ ملنے لگی

سورج مکھی خوردنی تیل کی پیداوار کا ایک اہم ذریعہ اور نفع بخش فصل سمجھی جاتی ہے۔ کینولا کے بعد سورج مکھی کم وقت میں تیار ہونی والی دوسری اہم فصل ہے جو صرف ۱۰۰ سے ۱۲۰ دن میں تیار ہوجاتی ہے۔

پنجاب میں سورج مکھی کی دو فصلیں اگتی ہیں۔ بہاریہ فصل جنوری اور فروری میں کاشت کی جاتی ہے جبکہ خزاں کی فصل اگست اور ستمبر میں اگائی جاتی ہے۔ تھل ریجن میں تیز ہوائیں اور آندھیاں چلتی ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے کسان سورج مکھی کی بہاریہ کاشت کو ترجیح دیتے ہیں۔

محکمہ زراعت نے 20-2019 اور 24-2023 تک کے سیزنوں کے لیے تیل دار اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے تقریباً ساڑھے پانچ ارب روپے مختص کیے تھے۔ اس سکیم کے تحت کاشتکاروں کو سورج مکھی، کینولا اور تِل کا تصدیق شدہ بیج محکمہ زراعت سے منظور شدہ کمپنیوں کے ذریعے سبسڈی ای واؤچر کے ذریعے فراہم کیا جانا تھا اور فی ایکڑ سبسڈی پانچ ہزار روپے رکھی گئی تھی۔

غلام عباس بلوچ

پاکستان میں استعمال ہونے والے سورج مکھی کے ہائبرڈ بیج سے جو فصل پیدا ہوتی ہے اس سے فصل کے بیج نہیں بنائے جا سکتے اور انہیں بیرون ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔

سورج مکھی کا بیج ملنا مشکل، کسان پریشان

ضلع بھکر کے کاشت کار محمد جمیل نے اس بار اپنی زمین پر سورج مکھی کاشت کرنی ہے لیکن انہیں اس کا بیج نہیں مل رہا۔ وہ چھ ایکڑ پر یہ فصل اگانا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک انہیں جتنا بیج ملا ہے اس سے بمشکل دو ایکڑ ہی پورے ہوں گے۔ وہ بیج خریدنے کے لیے روزانہ مارکیٹ کا چکر لگاتے ہیں لیکن ڈیلر حضرات ہر بار انہیں کل آنے کا کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔

جمیل بھکر کے نواحی علاقے مسلم کوٹ میں 15 ایکڑ اراضی کے مالک ہیں جس کے ساتھ انہوں نے 30 ایکڑ ٹھیکے پر بھی لے رکھے ہیں۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ اگر سورج مکھی کی کاشت کا صحیح وقت گزر گیا تو انہیں کم از کم چار ماہ تک ٹھیکے والی زمین کے اس حصے کو خالی رکھنا پڑے گا جہاں وہ سورج مکھی اگانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے ہر سال زمین کے مالک کو ٹھیکے کی رقم بھی دینا ہوتی ہے اور سورج مکھی کے لیے مخصوص رقبے پر فصل نہ اگائی جا سکی تو یہ ان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

جمیل کی طرح چک نمبر 51 ٹی ڈی اے کے مرید عباس اس سال 10 ایکڑ رقبے پر سورج مکھی کاشت کرنا چاہتے تھے مگر کئی روز کوشش کے بعد انہیں صرف چار ایکڑ کے لیے ہی بیج مل سکا ہے۔ باقی چھ ایکڑ رقبے پر انہوں نے جانوروں کے چارے کے لیے مکئی کاشت کی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ فصل سورج مکھی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا متبادل نہیں ہے۔

غلام عباس بلوچ

پچھلے سیزن (22-2021) میں بھکر کے کسانوں نے سورج مکھی کا بیج سات ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے خریدا تھا جس میں حکومت پنجاب کی جانب سے کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پانچ ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی بھی شامل تھی۔ اس سال وہی بیج 17 سے 18 ہزار روپے فی ایکڑ میں مل رہا ہے اور وہ بھی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہے۔

صوبائی محکمہ زراعت کے مطابق پنجاب میں پچھلے سال 49 ہزار 450 ایکڑ رقبے پر سورج مکھی کاشت ہوئی تھی جس میں سے تھل کے ضلع بھکر اور میانوالی میں مجموعی طور پر 5 ہزار 757 ایکڑ پر یہ فصل اگائی گئی جس میں بھکر کا حصہ 3 ہزار 378 ایکڑ تھا۔

خدشہ ہے کہ کسانوں کی موثر رہنمائی نہ ہونے، بیج کی قلت اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پورے تھل خصوصاً بھکر میں سورج مکھی کی کاشت میں کمی آ سکتی ہے۔

بھکر کے زمیندار عمران اسلم کا کہنا ہے چونکہ سورج مکھی کی پیداواری صلاحیت بہت سی دوسری فصلوں سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے بھکر کے کسانوں کی بڑی تعداد سورج مکھی اگانے لگی ہے۔ یہ دیکھ کر ڈیلروں نے بیج کی مصنوعی قلت پیدا کر دی ہے تاکہ اسے مہنگے داموں بیچ سکیں۔ اس سے کاشتکاروں کو یہ نقصان ہوگا کہ بروقت فصل کاشت نہ ہونے سے ان کی پیداوار کم ہو جائے گی۔

عمران اسلم کہتے ہیں کہ “سورج مکھی کا بیج پہلے بھی آسانی سے نہیں ملتا تھا لیکن اب جس قدر برے حالات ہیں وہ پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔”

راؤ ماجد ایوب بھکر میں سورج مکھی اور دیگر فصلوں کے ہائبرڈ بیچ فروخت کرنے والے ایک بڑے ڈیلر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے پاکستان میں 10 کمپنیاں سورج مکھی بیج کے بارہ سے زیادہ برانڈ فروخت کرتی تھیں تاہم اس سال حکومت نے صرف چار کمپنیوں کو ہی بیج منگوانے کی اجازت دی ہے جس کی وجہ سے بیج کی قلت ہو گئی ہے۔

ماجد کے مطابق ہوائی جہاز کے ذریعے درآمد اس بیج کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ بحری جہاز کے بجائے ہوائی جہاز سے بیج منگوانے پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مرتبہ پہلے کی نسبت بیج کی کم مقدار درآمد ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے بیج کے کنٹینر چھوڑ دیے جائیں تو اس کی قلت ختم ہو جائے گی اور بہاریہ کاشت کے بعد کسانوں کو موسم خزاں کی کاشت میں آسانی رہے گی۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر شوکت علی عابد نے بھی پنجاب کے رپورٹر غلام عباس بلوچ کو بتایا کے میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے ”چونکہ سورج مکھی کا ہائبرڈ بیج بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اسی لیے جب ڈالر کی قیمت بڑھی تو اس بیج کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں، نتیجتاً بیج مہنگا اور کم دستیاب ہوتا ہے۔”

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سورج مکھی سمیت دیگر اجناس کے ہائبرڈ بیج بنانے والی کمپنیوں سے انڈیا کی طرز پر معاہدے کرے جن کے تحت پاکستان کو بیج فراہم کرنے والی کمپنیاں پاکستان میں ہی اپنے فارم بنائیں اور یہیں پر بیج تیار کریں تاکہ آنے والے وقت میں کاشتکاروں کو مشکل پیش نہ آئے۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply