ہجرت کالونی برساتی نالے میں ملبہ ڈال کر قبضہ جاری۔ ذمیدار کون؟ حصہ دوم

ہجرت کالونی کا نالا جو مائی کولاچی بیسن سے ملتا ہے اس کے اطراف گذشتہ برس کے مقابلے میں اس سال ملبہ بھرائ اضافہ ہوا ہے واضح رہے کے دی انوائرمنٹل نے گزشتہ برس اس پر تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی۔

اگر ہجرت کالونی میں کولاچی بائے پاس کی طرف سے آرہے ہیں تو آغاز ہوتے ہی نالہ کے مرکزی راستہ میں تقریباً 117 گز تک قبضہ ہے اور جیسے نالے کے دوسرے طرف جاتے ہیں تو گزشتہ برس کے قبضے میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آغاز میں ہی گذشتہ برس کے مقابلے میں پانچ گز قدرتی نالہ کی زمین کو قبضہ کیا گیا ہے۔

نالے کا قدرتی راستہ جو پہلے سے ہی انتظامی بنیاد پر درست نہیں ہے جبکے دوسری جانب قبضہ جاری ہے اس ضمن میں حالیہ برس کی مون سون بارشوں کے دوران چوک تھا اور دوران بارش کے،ایم،سی کی مشینری نالے کے پانی کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔وقار احمد مقامی رہائشی نے نامہ نگار کو بتایا کے مون سون بارشوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد (کے،ایم،سی) سمیت کوئی نہیں آیا اور اب یہ نالہ اگلے سال تک ایسا ہی رہے گا۔

ایک اور مقامی رہائشی خورشید خان نے بتایا کے حالیہ بارشوں کے دوران سابق ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ آئے تھے مگر انہوں نے یہ نہیں دیکھا کے جس زمین پر وہ کھڑے ہیں یہ نالہ تھا اور اب یہ زمین ہے جب کے جہاں سے وہ علاقے میں داخل ہوئے تھے وہاں سے صاف نظر آتا ہے کے قدرتی نالہ کی زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔

خورشید نے بتایا کے اب یہاں باقاعدہ پارکنگ لگتی ہے ہفتہ وار بازار لگتے ہیں اور تمام قسم کا کاروبار کیا جاتا ہے تاہم یہ معلوم نہیں کے کون ملبہ بھرائی کروا رہا ہے۔

خورشید کے مطابق رات کے اوقات میں ملبہ لایا جاتا ہے اور رات ہی رات میں نالے کی زمین کو بھرا جاتا ہے۔

دی انوائرنمنٹل نے گوگل میپ کے ذریعے سے حاصل کی گئی تصاویر اور ڈیٹا سے معلوم کیا کہ گزشتہ برس مئی 2021 میں 93 میٹر تک زمین کو آگے لے جایا گیا۔ یہ حصہ نالے کے درمیان کا حصہ ہے اور اس کے اطراف بھی معمول سے ہٹ کر ملبہ اب بھی ڈالا جارہا ہے جبکہ اس گزشتہ سال میں ہی اس میں 3 میٹر تک اور اضافہ ہوا اور اب یہ ٹوٹل ایریا 96 میٹر تک ہے۔

نالوں پر قبضہ کرنا۔ آخر وجوہات کیا؟

2013 میں کراچی میں مسلح افراد کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والی سماجی رہنما اور اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سابق ڈائریکٹر پروین رحمان کی سربراہی میں 14 سال قبل کراچی کے نکاسی آب اور برساتی نالوں کا ایک تفصیلی نقشہ جاری کیا گیا تھا، جس کو بعد میں سرکاری و غیرسرکاری ادارے شہر میں کسی بھی نکاسی آب کے منصوبے کے لیے حوالے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

اس نقشے کو بنانے والی ٹیم کے ایک رکن اور موجودہ سینیئر مینجر، میپنگ اینڈ ڈاکومیٹیشن، اورنگی پائلٹ پراجیکٹ اشرف ساگر کے مطابق اس نقشے کو بنانی والی ٹیم نے شہر کے تمام نالوں کے ساتھ پیدل چل کر ان نالوں کی چوڑائی اور لمبائی ناپنے کے ساتھ نالے کے ساتھ آباد بستیوں اور دیگر جگہوں کا بھی جائزہ لیا تھا۔

اشرف ساگر نے بتایا: ’شہر کے تمام بڑے نالے بنیادی طور پر بارش کا پانی سمندر لے جانے والے قدرتی نالے ہیں، جو بعد میں نکاسی آب کے لیے استعمال ہونے لگے اور چونکہ بارش تو کبھی کبھی ہوتی ہے تو عام دنوں میں ان بڑے سائز کے نالوں میں نکاسی آب کا پانی تھوڑی سی جگہ سے بہہ رہا ہوتا ہے، ایسے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ نالا تو بس چھوٹا سا ہے، باقی نالے کی جگہ خالی ہے، اس لیے لوگ نالے میں آبادیاں بنانے کا سوچتے ہیں۔

نوٹ: اس حوالے سے ہم نے متعلقہ اداروں سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم اب تک کیسی سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔

:اس کہانی کا گذشتہ برس  شائع ہونے والا پہلا حصہ

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply