زہریلی ہوا میں سانس لیتا شہر کراچی

محمد توحید، اربن پلانر ریسرچر-کراچی اربن لیب

صاف ہوا ہر شہری کا آئینی حق ہونے کے باوجود ہوا کے معیار کو بہتر بنانا ہمارے اداروں کی ترجیحات میں شامل نظرنہیں آتا۔

کراچی سموگ یا فضائ آلودگی کا منظر

شہروں کے تناطر میں موسمیاتی تبدیلیوں اور خراب ہوا کے معیار کی وجہ سے صحت عامہ کا بحران ایک عومومی بات نظر آرہی ہے اور عالمی ادارے اس حوالے سے انتباہ کر رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے اکثر شہر اس تباہی سے دو چار ہیں اور فضائی آلودگی کے سبب اموات میں اضافہ نہ صرف نظر آرہا ہے بلکہ مستقبل میں اس میں سنگین اضافے کی توقع ہے۔ یوں ہمارے شہروں کا مستقبل صحت عامہ کے مسائل کے لحاظ سے ایک بڑے خطرے سے گھرا ہوا ہے۔ سانس کے امراض، پھیپڑوں کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں کیونکہ ہم آلودہ، بلکہ زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔ اگر ہم ارد گرد نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر صحت مند ہے کیونکہ موسم چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو گلے کی بیماریاں، کھانسی اور نزلہ ایک معمول ہے۔ پھر سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں کم عمر بچے یا بوڑھے یا پھر وہ لوگ جو پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں شامل نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو دیکھیں وہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نبرد آزما ہیں اور کسی نہ کسی قسم کے خطرات سے دوچار نظر آتے ہیں کراچی اور اسلام آباد میں شہری سیلاب، شدید بارشیں تو پنجاب کے شہروں میں دھند ہے۔ تو کہیں پینے کا پانی میسر نہیں ان سب عوامل کے ساتھ آلودہ اور زہریلی ہوا سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ شہر کے شہر اس کی لپیٹ میں ہیں اور یہ حدود و قیود سے آزاد ہے۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک آلودگی کے وہ ذرات ہیں جنہیں پی ایم ۲.۵ کہا جاتا ہے اور یہ انتہائی باریک ہوتے ہیں۔ ہم عام آنکھ سے انہیں نہیں دیکھ سکتے بلکہ مائکرو اسکوپ سے اس کی موجودگی پتہ چلتی ہے۔ اور یہ طویل فاصلے تک سفر کر سکتے ہیں۔ پھر شہروں میں صنعتی گیسوں کا اخراج، گاڑیوں کے دھویں کا اخراج اس صورتحال کو مزید پیچیدہ کرتا ہے۔ یہ وہ قاتل ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے مگر اسکی نگرانی کے پیمانے لگا کر اپنی ہوا کے معیار کو ناپ سکتے ہیں اور اگلے مرحلے میں صورتحال کو بہتر بنانے پر کام کیا جاسکتا ہے

جام چھاکرو کچرا ڈمپ کراچی میں ہر وقت اٹھتا ہوا دھواں۔

دنیا کے بڑے شہر اپنی ہوا کے معیار کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں اور اپنے پڑوسی شہروں کو بھی اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ کام باہمی اشتراک کے بغیر ممکن نہیں۔ ان شہریوں کو سمجھ ہے ہوا نہ تو کسی جغرافیائی یا سیا سی حدود کی پابند نہیں ہوتی۔ شہریوں کو صاف ہوا کی فراہمی ایک عالمی مقصد کے طور پر سامنے آرہا ہے، دنیا کے شہر اپنے کچرے کو تلف کرنے کے نظام میں تبدیلی لارہے ہیں۔ بلکہ اس سے توانائی حاصل کر رہے ہیں، ساتھ ہی کاربن کے اخراج کو کم کر رہے ہیں، اور قابل تجدید توانائی کے طریقوں کو فروغ دے رہے ہیں- اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۸ جولائی ۲۰۲۲ کو ایک تاریخی قرارداد منظور کی جس میں اعلان کیا گیا کہ کرہ ارض پر ہر فرد کو صاف ہوا، پانی اور مستحکم آب و ہوا سمیت صحت مند ماحول کا حق حاصل ہے۔ انسانی بہبود پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے، یہ قرارداد بہت سے ممالک کے شہریوں کو انسانی حقوق کی قانون سازی کے تحت ماحولیاتی تباہ کن پالیسیوں کو چیلنج کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ پاکستان نےاس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا اور کہا کہ یہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کے حق کی حمایت کرتا ہے جبکہ اصل میں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ صاف ستھرا ماحول تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۹ اور ۱۴ کے تحت جو “زندگی کے حق” اور “عزت کے حق” کی ضمانت دیتے ہیں۔ زندگی اور انسانی وقار کے آئینی حقوق میں صحت مند اور صاف ماحول کا حق شامل ہے۔ ۱۸ویں ترمیم کے تحت ہوا کے معیار کا انتظام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر ساتھ ہی وفاقی ادارے بری الزمہ نہیں ہوسکتے یوں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں قومی سطح پر صاف ہوا کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کیونکہ ہوا جغرافیائی حدود کا احترام نہیں کرتی۔

قانون موجود ہونے کے باوجود ‘فضائی آلودگی’ پاکستان کی صحت کے لیے دوسرے سب سے زیادہ خطرے والا عنصر ہے- یہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے، جسے ہم مزید نظر انداز کرنے یا مسترد کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ فضائی آلودگی کے صحت پر پڑنے والے اثرات مختلف انداز میں سامنے آتے ہیں۔ جس میں بنیادی بیماریاں پھیپھڑوں کا کینسر اور سانس کے انفیکشن ہیں۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ماہرین صحت کے مطابق فضائی آلودگی ادراک کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتی ہے – یعنی ہماری صلاحیتیں جس میں منطقی سوچ، استدلال، خیالات اور معلومات کو برقرار رکھنے کی صلاحیت شامل ہیں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ یعنی فضائی آلودگی دماغ کے اعصابی افعال کو براہ راست متاثر کرتی ہے، جس سے علمی تنزلی ہوتی ہے۔ چونکہ دوسری طرف، فضائی آلودگی کا بنیادی اثر پھیپھڑوں پر دیکھا جا سکتا ہے، مناسب طریقے سے سانس لینے میں ناکامی فرد کی توجہ کو متاثر کرتی ہے۔ جب ہم صحیح طریقے سے سانس نہیں لے سکتے تو بنیادی کاموں پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو جاتا ہے

شارہ فیصل کارساز پل کے برابر اٹھتا ہوا دھواں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر ۱۰ میں سے ۹ افراد خطرناک سطح تک آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں۔ جبکہ فضائی آلودگی کے نتیجے میں ہر سال تقریباً ۷۰ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ پوری دنیا اس وقت فضائی آلودگی کے حوالے سے سنجیدہ نظر آتی ہے برطانیہ، امریکہ سے لے کر جاپان اور سنگاپور تک صاف ہوا کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے جارہے ہیں. جبکہ ہمارے پاس ابھی تک بنیادی تحقیق ہی موجود نہیں کہ فضائی آلودگی ہمارے شہروں اور آبادیوں کو کس طرح اور کتنا متاثر کر رہی ہے۔ نومولود بچوں سے لے کر کم قوت مدافعت والے افراد اور بزرگوں پر اس کے کیا اثرات ہیں؟ خواتین کو یہ کیسے متاثر کرتی ہے؟ اور جن کا کام ایسا ہے کہ کھلی فضا میں انہیں اہنا دن بسر کرنا ہے یا وہ لوگ جو پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں ان کی بیماری کے اثرات کو یہ کیسے بڑھاتی ہے؟ جبکہ دوسری جانب بیرونی فضائی آلودگی کو بڑھانے والے عوامل جیسےفیکٹریوں اور کوئلہ، کچرا، تیل یا ٹائر جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں یا گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں- یہ سب ہماری ہوا کو بری طرح آلودہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہوا کا معیار آلودگی کی پانچ اقسام پر مبنی ہے: زمینی سطح اوزون، پارٹیکیولیٹ مادہ، کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ۔ جبکہ ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ شاید ہم صرف درخت لگا کر ہوا کو صاف کر سکتے ہیں جن کی تعداد میں بھی کمی آتی جارہی ہے۔ فضائی آلودگی کی زیادہ تر وجوہات انسانی ساختہ ہیں۔ اس لیے گنجان آبادی والے شہروں میں فضائی آلودگی کثرت سے دیکھی جاتی ہے۔

ہوا کےمعیار اور آلودہ شہر کی درجہ بندی کے حوالے سے ہوا کا معیار ناپنے والی عالمی ویب سائٹ کو دیکھا جائے جہاں فضائی آلودگی کے لحاظ سے مختلف ممالک اور شہروں کی فہرست جاری کی جاتی ہے تو لاہور اور کراچی دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں صف اوّل میں شامل نظر آتے ہیں۔

شہر کراچی جہاں 3 کروڑ لوگ بستے ہیں یہاں سرکاری اداروں کی جانب سے لگائے گئے کتنے پیمانے موجود ہیں جو ہوا کے معیار کی جانچ کر سکیں؟ حکومت صوبے بھر میں فضائی آلودگی کو روکنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اس کی تفصیلات فراہم کرنے والا ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ کی قائم کردہ ماحولیاتی لیبارٹری اور دیگر سائنسی آلات غیر فعال کیوں ہیں؟ شہر میں ٹھوس فضلے کو جلانا ایک عام سی بات ہے ریستورانوں کا دھواں ہو یا صنعتی اداروں کی جانب سے ماحول کو آلودہ کرنا ہو جو ہوا کے معیار کی گراوٹ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مگر اداروں کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے- اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول فراہم کرے۔ اور یہ سماجی انصاف کا معاملہ ہے، جس میں اداروں کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے لیے زیادہ سے زیادہ جوابدہی ہونی چاہیئے۔

 کراچی جیسے بڑے شہر میں ہوا کے معیار کو جانچنےوالے کم از کم 100 پیمانے لگانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی طور پر ہوا کے معیار کا تجزیہ کیا جا سکے افسوسناک بات یہ ہے کہ شہر بھر میں سرکاری سطح پر ہوا کے معیار کو ماپنے کا ایک بھی پیمانہ موجود نہیں جبکہ نجی اداروں کی جانب سے دو درجن پیمانے لگائے گئے ہیں۔ مگر ان سے حاصل اعدادوشمار کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں۔ اب یا تو سرکار ان اعدادوشمار کو تسلیم کرے یا پھر اپنے پیمانے لگائے کیونکہ یہ ایک مجموعی مسئلہ ہے

ہمیں اپنے شہروں میں سرکاری سطح پر قابل اعتماد فضائی معیار کی نگرانی کے مربوط جال کو بچھانے اور اسے پائیدار انداز میں چلانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں کو چاہیئے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھیں اور آلودگی کو کم کرنے کے لیے دیگر معیارات اور فریم ورک قائم کرے۔ ساتھ ہی ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے آلات نصب کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کی دیگر کلیدوں پر بھی توجہ کی جائے جیسے کہ زیادہ درخت لگانا، پرانی گاڑیوں کو تبدیل کرنا اور بالخصوص کراچی اور لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو یقینی بنانا اور ساتھ ہی اس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے مقامی لوگوں سے بات چیت کرنا اور انہیں اس کے استعمال پر آمادہ کرنا

فضائ آلودگی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اسے فوری طور پر قابو کرنا بہت ضروری ہو چکا ہے۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply