مسلمانوں کی الہامی کتاب، قرآن، مسلمانوں کو ماحولیاتی تحفظ پر کیا احکامات دیتی ہے۔

اگرچہ ماحول کے متعلق اسلام کا نظریہ قابلِ عمل اور اخلاقی اصولوں کے مطابق ہے، لیکن پھر بھی جہاں تک جنگلات کی بربادی، زمین کے کٹاؤ، پانی کی آلودگی، جنگلی حیات کی تباہی اور مضرصحت گندگی کا تعلق ہے، مسلم ممالک دنیا کے باقی صنعتی ممالک سے بہتر نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف صحت بخش ماحول کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ نامناسب ٹکنالوجی کی درآمد اور استعمال اور دیگر ماحول دشمن اقدامات سے ماحول کو ایسا زہرآلود بنادیتے ہیں کہ انسانی بقا کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک ماحولیاتی خطرات کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ماحول کے متعلق اسلام کے احکامات سے ناواقف ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کائنات، فطرت اور قدرتی ماحول کے متعلق قرآنی آیات کی تعداد ان آیات سے زیادہ ہے جن کا تعلق احکامِ ربانی اور مذہبی عقائد سے ہے۔ درحقیقت قرآنی آیات میں سے ۷۵۰ آیات (یعنی قرآن کا آٹھواں حصہ) ایمان والوں کو ترغیب و تلقین کرتی ہیں کہ وہ اللہ کی قدرت پر غور کریں، تمام جان داروں کا ان کے گردونواح کے ماحول سے تعلق کا مطالعہ کریں، اور اللہ کی تخلیق کے درمیان توازن اور تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے عقل و دماغ سے کام لیں۔

فوٹوگرافی: احمد شبر

اللہ تعالیٰ نے ارضی وسائل، یعنی زمین، پانی، ہوا، معدنیات اور جنگلات انسانوں کے لیے پیدا کیے ہیں تاکہ ہم اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ان سے مستفید ہوں۔ ہم انھیں اپنے مقاصد اور مفاد کے لیےان تعلیمات کے غلط معانی لیتے ہوئے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ان مسلم ممالک میں ملتی ہے جہاں ماحول کی اہمیت سے آشنا رہنماؤں کا فقدان ہے۔

انسان منتظم ہے کرہ ارض کا

بہت سے مسلمانوں کو تو ماحول کے تحفظ کے متعلق قرآن کی تاکید پرحیرت ہوگی کہ ماحول کے متعلق اسلام کا نظریہ کس قدر تقدس اور پاکیزگی کا حامل ہے۔ کائنات کی ہرتخلیق کا کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی چیز متاثر ہوتی ہے تو اس کا اثردوسرے پر بھی پڑتا ہے۔ انسان قدرت کی بہترین تخلیق ہے۔ اس کا قدرت سے رشتہ کسی بھی حال میں منقطع نہیں ہوسکتا۔

انسان چونکہ غوروفکر کی صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے اس کو روئے زمین پر اللہ کا نائب بنایا گیا ہے۔ قدرت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے توازن رکھا ہے اور ایک مہتمم کی حیثیت سے انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کے کسی بھی عمل سے قدرت کے توازن میں کوئی خلل نہ پڑے۔ روۓ زمین پر ناظم کی حیثیت حاصل ہونے کے معنی یہ نہیں کہ انسان کو ہر ذی روح پر فوقیت حاصل ہے۔ دراصل حاکمیت تو صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ ایک ناظم کی حیثیت سے انسان پر اللہ کی تخلیق کے تحفظ کے سلسلے میں اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہیں۔ لہٰذا انسان کے طرزِ زندگی اورقانونِ قدرت میں تضاد اور مخاصمت نہیں بلکہ ہم آہنگی اور مطابقت ہونی چاہیے۔ اسلام میں قدرت کی تخلیق پر غوروفکر اور اس کی پنہاں کارکردگی کے سمجھنے کو علم کا بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو اپنے اردگرد قدرت کی تخلیق اور مظہرکائنات میں اللہ کی قدرتِ کاملہ کا پر تو نظر آسکتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو، جس کو قرآن کی اصطلاح میں قانونِ قدرت کہا جاسکتا ہے، بہتر سمجھ سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے

(البقرہ 2:164) ترجمعہ
“جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اِسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہرقسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں۔”

ماحولیات کی سائنس کا اہم مقصد روئے زمین کو مختلف قسم کی حیاتیات کے لیے موزوں اور قابلِ رہایش بنانا ہے۔ مختلف اقسام کی جماداتی، حیوانی اور نباتاتی حیاتیات کے بغیر ہماری زندگی جیسی کہ ابھی ہے، ممکن نہ ہوتی۔ ہر جان دار کو زمین پر زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا حق حاصل ہے کیونکہ ان کی موجودگی سے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں ایک تناسب اور حُسن ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں یوں فرماتا ہے:

ترجمہ (النزعٰت 79: 34-33)
“اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا، اُس کے اندر سے اُس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑ اس میں گاڑ دیے سامانِ زیست کے طور پر تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے۔”

 

منتظمِ ارض کی اخلاقی ذمہ داریاں

انسان اللہ کی مخلوق ہے اور وہ اس کی دوسری مخلوقات کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک دوسرے سے وابستہ اس عالمی نظام میں جس کا انسان ایک حصہ ہے، اس کی زندگی کا انحصار دوسرے جان داروں پرہے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ انسان اس غلط فہمی کا شکار بنا رہے کہ وہی اللہ کی تخلیق کا بہترین نمونہ ہے۔

انسانی طرزِ زندگی میں تغیرات سے انسان کے کردار میں بھی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور اب انسان منتظم اور محافظ کی بجاے ایک تخریب کار اور غارت گر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس خطرناک تبدیلی سے انسانی ذہنیت، تصور اور تخیل میں بھی ایک بڑا فرق پڑا ہے۔ انسان کے مادی اور روحانی، دُنیاوی اور دینی تقاضے بدل گئے ہیں۔

اگر مادی اور روحانی تبدیلیوں کے نتیجے میں انسان اپنے ہاتھوں لائی ہوئی تباہ کاریوں سے بالکل بے حس ہوجائے اور پھر بھی اس کی روح رحمت ِ باری کی تمنا کرے تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا بے حس انسان اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے اور اللہ کی مخلوق کو نیست و نابود کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرے گا۔

اسلام کا نقطۂ نظر اس مسئلے میں بالکل واضح ہے۔ وہ روح اور جسم میں فرق تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام میں روح اور جسم ایک ہی حقیقت، یعنی انسانی زندگی کے دو رُخ ہیں۔ کوئی بھی مسلمان جس کی زندگی اس عالمِ فانی میں حرص و ہوس اور جنگ و جدل میں گزری ہو وہ عالمِ جاوداں میں اپنی نجات کی اُمید نہیں کرسکتا، اور اگر وہ اللہ کی مخلوق سے نفرت کرتا ہے تو وہ خالقِ کائنات سے بھی محبت نہیں کرسکتا۔

ماحول سے متعلق اسلامی احکامات اور آگہی

۱۹۶۰ء میں ریسل کارسن کی کتاب Silent Spring کے شائع ہونے کے بعد ماحول کے متعلق لوگوں نے اوزون (Ozone ) میں سوراخ، گرین ہاؤس اور تیزابی بارش کے مضر اثرات کے بارے میں بہت ہی تشویش کا اظہار کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے بعد زمین کو لاحق نقصانات سے بچانے کے لیے ماحول سے متعلق قواعد و ضوابط بنائے جارہے ہیں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کا کردار نہایت سُست اور نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ قرآن واضح طور پر مسلمانوں کو ماحول کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔

اگر مسلمانوں کو ماحول کے تحفظ کے لیے بیدار کرنا ہے، تو دورِحاضر کےعلماے اسلام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو ان قرآنی احکامات سے آگاہ کریں جن کا تعلق ماحول کی اہمیت اور تحفظ سے ہے۔ اب دنیا کے مسائل ہزاروں سال پرانی دنیا کے مقابلے میں، جب کہ صنعتی انقلاب کا نام و نشان تک نہ تھا اور نہ زمین کے وسائل پر اس قدر بار تھا، بہت زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ ماحول سے متعلق کچھ قوانین جو اسلامی تہذیب کے زمانۂ عروج میں مرتب کیے گئے تھے، موجودہ دور کے تقاضوں کے لیے ناکافی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین صرف وقتی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں مگر قانونِ قدرت ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

قرآن کہتا ہے

الروم (30:41)
“خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے اُن کو اِن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔”

مفہوم یہ ہے کہ جب قدرتی وسائل کا غیراخلاقی اور ناجائز استعمال شروع ہوجاتا ہے تو قدرتی ماحول کی تباہ کاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔

مسلم علما اور سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایسے قوانین وضع کریں جو موجودہ دور کے ماحولیاتی تقاضوں کو پورا کریں اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے سیلاب، خشک سالی اور غربت کے تدارک ، تہذیب و تمدن کے تحفظ اور گرین ہاؤس، تیزابی بارش اور نیوکلیائی تباہ کاریوں کو روکنے میں مؤثر اور کارگر ہوسکیں۔

قرآن کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے دوسری مخلوقات کی جائز ضروریات کو پامال نہیں کرسکتا۔ اپنی حاجات کے حصول کے لیے انسان کا انحصار اس دنیا پر ہے جس کا خالق وہ نہیں، اللہ ہے۔ لہٰذا اس کو تباہ کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے۔ دُنیاوی زندگی کی پیچیدہ راہ میں قدرت کی ایک معمولی شے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے قدرت کی چیزوں پر انسان کی ملکیت کا اسلام میں کوئی تصور اور جواز نہیں۔

قرآنی تعلیم کے حوالے سے ماحول سے متعلق سائنس کا تعلق اقتصادیات سے ہے اور بادی النظر میں یہ مذہب سے منسلک ہے۔ اس نظریے کی تشریح دورِ جدید کے حالات کے مطابق ضروری ہے، تاکہ مسلمانوں کے نظریہ اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور ماحول کی سائنس کو اسلامی اعتقاد کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ اس وقت دورِ جدید کو ایسے علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو جدید تعلیم و حکمت کی تحصیل کی ترغیب دیں اور اپنے زورِ قلم اور فصاحت سے دورِ حاضر کے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے پر آمادہ کریں۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply