,

پاکستان میں شہد کی مکھی نیاب ہونے کے قریب۔

فوٹوگرافی: احمد شبر

-پاکستان میں سالانہ ۱۵ ہزار ٹن شہد پیدا ہوتا ہے- پاکستانی سالانہ ۱۵ گرام فی کس شہد استعمال کرتے ہیں جبکہ عالمی اوسط ۱۵۰ گرام فی کس ہے

پاکستان اپنی پیداوار کا چوتھائی سے کم حصہ ایکسپورٹ کرتا ہے جس میں سے زیادہ تر مشرق وسطیٰ جاتا ہے۔ پاکستان میں شہد کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ ترناب، پشاور میں ہے۔

۲۰۲۰ء میں پاکستان میں ۲۷ ہزار مگس بان (مکھیاں پالنے والے) تھے. پاکستان میں پیدا ہونے والے شہد میں سے ۵۳ فیصد کیکر کا شہد ہوتا ہے اور ۴۰ فیصد بیری/سدر کا۔

فصل بچائیں یا شہد کی مکھیاں؟

پروفیسر ڈاکٹر عبدالغنی لنجار حشرات کے علم کے ماہر ہیں۔ وہ سندھ زرعی یونیورسٹی، ٹنڈو جام سے منسلک رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فصلوں پر استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات دوست اور دشمن کیڑوں میں تمیز نہیں کر سکتیں۔ “یہ ادویات یا تو شہد کی مکھیوں کو مار دیتی ہیں یا اڑنے سے معذور کردیتی ہیں۔ بعض کیمیکل ان کی یاداشت کو متاثر کرتے ہیں اور وہ راستہ بھول جاتی ہیں اور اپنے چھتے تک واپس نہیں جا پاتیں”۔

ڈاکٹر لنجار اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ مکھیوں کی بربادی سے صرف شہد کی پیداوار میں ہی کمی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی دوسری فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ قدرت نے پاکستان میں پیدا ہونے والی ۶۱ فصلوں میں بارآوری (پولینیشن) کا عمل شہد کی مکھیوں کے ذمے رکھا ہے اور ان کی آبادی میں کمی اس عمل میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلاب، موتیا، چنبیلی اور آبی نرگس میں پولینیشن کا ۸۰ فیصد کام یہی مکھیاں انجام دیتی ہیں۔ “بہت سی فصلوں کے لیے پانی اور ہوا کے بعد یہ مکھیاں سب سے اہم ہیں۔”

پولینیشن پھول کے نر دانوں کو مادہ انڈوں تک پہنچانے کے عمل کو کہا جاتا ہے جس کے بعد ہی وہ پھل دے سکتے ہیں۔

فوٹوگرافی: احمد شبر

ڈاکٹر لنجار بتاتے ہیں کہ شہد کی جنگلی مکھیوں کا قدرتی مسکن تو جنگلات اور پہاڑی علاقے ہی ہیں لیکن انسانی ہاتھوں ان جگہوں کی تباہی کے باعث وہ زرعی علاقوں کی جانب ہجرت کر گئی ہیں۔ “بڑی مکھی تو اب بھی جنگلات میں ہی رہنے کو ترجیح دیتی ہے جبکہ چھوٹی مکھی نے انسانی آبادی کے قریب رہنا سیکھ لیا ہے۔ تاہم اب زرعی ادویات کے بے تحاشا استعمال کے باعث وہ یہاں بھی غیر محفوظ ہے”۔

نثار احمد جتوئی نے اپنے غم و غصّے کا اظہار کھل کر کیا۔ وہ دریائے سندھ کے کنارے بینظیرآباد کی تحصیل قاضی احمد کے گاؤں دریا خان جتوئی میں کھیتی باڑی کرتے ہیں۔

اس برس انہوں نے تین ایکڑ پر گندم اور چار پر سرسوں کاشت کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں سرسوں پر شہد کی دیسی چھوٹی مکھیاں بہت آیا کرتی تیں اور وہ بہار کے موسم میں شہد اتار کر بیچا کرتے تھے لیکن گزشتہ تین سال سے وہ یہ کام نہیں کر رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سرسوں پر دیسی چھوٹی مکھی تو اب تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتی۔ “لوگ پالتو فارمی مکھیوں اور بڑی مکھیوں کے شہد کو بھی دیسی کا نام دے کر فروخت کر رہے ہیں، میں یہ جھوٹ اور دھوکے کا کاروبار نہیں کر سکتا”۔

دیسی مکھیاں ببول، نیم، دیوی اور پیپل جیسے درختوں پر اپنا چھتہ بناتی ہیں اور سرسوں، سورج مکھی، باجرہ، مکئی، برسیم اور لوسن کی فصلوں سے رس اٹھا کر شہد بناتی ہیں۔

نثار جتوئی محکمہ جنگلات پر سخت برہم ہیں۔ “درخت اور جنگلات تو یہ بیچ کر کھا گئے ہیں، یہ کیا شہد بچائیں گے۔ ان کو کھانا آتا ہے۔ یہ بچانے والوں میں سے نہیں”۔

“ان کو جب بجٹ ملتا ہے تو یہ (اصل کام کرنے کے بجائے) ہمیں یہ سکھانے آجاتے ہیں کہ شہد کیسے اتارنا چاہیے۔ ارے بھائی، ہم نسلوں سے دریا کنارے آباد ہیں، ہم نے جنگلات میں عمر گزاری ہے، ہمیں پتا نہیں کہ شہد کیسے اتارا جاتا ہے؟”

شرجیل میمن محمکہ جنگلات سندھ میں نان ٹمبر فارسٹ پراڈکٹس کے ڈویژنل فاریسٹ آفسیر ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی کے باعث دیسی مکھیوں کی قدرتی آماجگاہوں کو نقصان پہنچا ہے اور “وہ یا تو مر گئی ہیں یا پھر ہجرت کر گئی ہیں”۔

مکھیوں کو بربادی سے کیسے بچایا جائے؟

فاریسٹ آفیسر شرجیل میمن جانتے ہیں کہ زرعی ادویات کے استعمال کو یکسر ترک نہیں کیا جا سکتا، وہ تجویز دیتے ہیں کہ ان کے استعمال کے طریقے میں تبدیلی کے ذریعے کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ادویات کا سپرے اگر دن کے بجائے رات کو کیا جائے تو شاید شہد کی مکھیاں کچھ محفوظ رہیں، کیونکہ رات کو وہ اپنے چھتے میں ہوتی ہیں۔

فوٹوگرافی: احمد شبر

خالد رفیق شہد کی مکھیوں پر ۳۳ تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے ایک ڈیجیٹل پلیٹفارم ‘لوک سجاگ’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فروری سے اپریل تک سندھ میں ملکہ مکھی بننے کا موسم ہوتا ہے۔ مکھیوں کی آبادی میں کمی کو روکنے میں ملکہ مکھیوں کی حفاظت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مکھیوں کی کالونی میں افزائش نسل کی ذمہ داری ملکہ مکھی کی ہوتی ہے۔

ان کے خیال میں ‘شہد کے شکاری’ بھی مکھیوں کی آبادی کو نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سے اس کام کی باریکیوں سے یا تو ناواقف ہیں یا لاپرواہ ہیں۔

“پورے چھتے کو اکھاڑنے سے نقصان ہوتا ہے۔ پورا چھتا شکاریوں کے کام کا نہیں ہوتا۔ چھتے کے نچلے حصے میں ملکہ کے بچے ہوتے ہیں جبکہ شہد چھتے کے اوپر والے حصے میں ہوتا ہے۔ مگر لا علم اور نا تجربہ کار شکاری پورے چھتے کو ہی اکھیڑ لیتے ہیں۔”

ان اقدامت سے کچھ بہتری تو لائی جا سکتی ہے لیکن زرعی ادویات کے بھاری استعمال کو کنٹرول کیے بغیر مکھی کی بحالی ایک ناممکن نہیں تو کٹھن کام ضرور ہے۔

دیہاتوں میں شہد کی دیسی چھوٹی مکھی اب نایاب ہونے کے قریب ہیں۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply