,

فضائی آلودگی پاکستانیوں کی اوسطاً عمر گھٹا رہی ہے رپورٹ میں انکشاف

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فضائی آلودگی پاکستانی شہریوں کی عمر لگ بھگ سوا چار سال گھٹا رہی ہے۔فضائی آلودگی کو جانچنے کے لیے کسی مانیٹر کی ضرورت نہیں، لاہور اور کراچی میں یہ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب محسوس ہونے لگی ہے، جب آسمان نیلےکے بجائے سرمئی نظر آنے لگے، حدنگاہ کم ہوجائے، عمارتیں دھندلی نظر آنے لگیں اور سانسوں کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے آلودہ ذرات طبیعت بوجھل کرنے لگیں تو سمجھ جائیں کہ آپ انتہائی آلودہ فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، یہ فضائیں آپ سے صحت مند زندگی گزارنےکا حق چھین رہی ہیں۔

دنیا بھر کی شہری آبادی کا آسی فیصد حصہ غیرمحفوظ فضائی آلودگی میں سانس لے رہا ہے۔ یہ تحقیق ان علاقوں میں جہاں تحقیق میں شامل افراد رہتے ہیں اس کے دس مائیکرو میٹر سے کے اندر وہاں کی فضا میں موجود سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور ہوا میں پائے جانے والے چھوٹے مضر صحت مادوں کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ کاربن مونو آکسائیڈ، اوزون اور ہوا میں پائے جانے والے مضر صحت بڑے مادے اس تحقیق میں شامل نہیں ہیں۔ تحقیق کے مطابق آلودگی سے الزائمر اور دوسری طرح کے ڈیمینیشیا جیسے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں انیس سو اٹھانوے کے بعد سے اوسطاً سالانہ بیس فیصد آلودگی بڑھی، جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ آلودگی میں سر فہرست ہیں۔ماہرین کا کہنا ہےکہ صاف آب و ہوا سےکراچی کے رہائشیوں کی اوسط عمر میں تین اعشاریہ چھ سال کا اضافہ ہوسکتا ہے، لاہور اور اسلام آباد کے رہائشیوں کی اوسط عمر میں بالترتیب پانچ اور چار سال کا اضافہ ممکن ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی) کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان بالخصوص لاہور، شیخوپورہ، قصور اور پشاور میں فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح سے پاکستانیوں کی عمر ممکنہ طور پر کم از کم سات سال تک کم ہونے کا امکان ہے۔

ایئر کوالٹی لائف انڈیکس (AQLI) میں پیش کردہ یہ تازہ ترین مطالعہ ہوا کے معیار میں بہتری کے اقدامات کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔

ایئر کوالٹی لائف انڈیکس ایک جامع آلودگی کا اشاریہ ہے جو متوقع زندگی پر ذراتی فضائی آلودگی (دھول مٹی) کے اثرات بیان کرتا ہے۔

پاکستان میں، ذراتی آلودگی صحت عامہ کے لیے دوسرے سب سے بڑے خطرے کے طور پر شمار ہوتی ہے، پہلے نمبر پر دل کی بیماریاں ہیں۔

یہ آلودگی سے متوقع عمر اوسطاً تین اعشاریہ نو سال تک کم کرتی ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ پاکستان کی چوبیس کروڑ آبادی ان خطوں میں رہتی ہے جہاں سالانہ اوسط ذراتی آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت (WHO) کی گائیڈ لائن سے زیادہ ہے۔

چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اٹھانوے اعشاریہ نو فیصد پاکستانی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو ملک کے اپنے پندرہ مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر کے ہوا کے معیار سے نیچے ہیں۔

مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ سالانہ پانچ مائیکروگرام فی مکعب میٹر کی حد پر عمل کیا جائے تو اوسط عمر نو اعشاریہ تین سال تک بڑھ سکتی ہے۔

ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کے اعداد و شمار انیس سو اٹھانوے سے دو ہزار اکیس تک پاکستان بھر میں اوسط سالانہ ذرات کی آلودگی میں پریشان کن انچاس اعشاریہ نو فیصد اضافے کو ظاہر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے متوقع عمر میں ایک اعشاریہ پانچ سال کی کمی واقع ہوئی ہے۔


پنجاب، اسلام آباد، اور خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ خطوں میں شامل ہیں، جن کے پینسٹھ اعشاریہ پانچ ملین عوام جو پاکستان کی آبادی کا انہتر اعشاریہ پانچ فیصد ہیں، ڈبلیو ایچ او کے رہنما خطوط کے مطابق عمر کے اوسطاً متوقع تین اعشاریہ سات سے چار اعشاریہ چھ سال سے محروم ہونے کے راستے پر ہیں۔

اسی طرح، اگر آلودگی موجودہ سطح پر برقرار رہتی ہے تو لوگوں کی عمر دو اعشاریہ سات سے تین اعشاریہ چھ سال تک کم ہوسکتی ہے۔

مطالعہ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس فہرست میں جنوبی ایشیا سرِ فہرست ہے جہاں چین میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی انسانی زندگی کے اوسط عمر سے چار اعشاریہ ایکسال، بھارت میں تین اعشاریہ نو برس اور پاکستان میں اوسط تین اعشاریہ آٹھ سال کم ہوسکتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آلودہ فضا میں مسلسل رہنے سے امراضِ قلب، سانس میں دقت اور بلڈ پریشر جیسی کیفیات پیدا ہوتی ہیں جو دھیرے دھیرے آپ کو متاثر کرسکتی ہے اور کسی عارضے میں مبتلا کرکے بیمار کرسکتی ہیں۔

رپورٹ میں ایک امید کی کرن بھی فراہم کی گئی ہے۔

رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے آلودگی کے معیارات حاصل کرنے سے متوقع عمر میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

اس سے کراچی کے رہائشیوں کو دو اعشاریہ سات سال جبکہ لاہور اور اسلام آباد کے رہائشیوں کو بالترتیب سات اعشاریہ پانچ اور چار اعشاریہ پانچ سال کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

 

خاکہ چار اور پانچ بھی اسی رپورٹ سے لیا گیا ہے

مکمل رپورٹ جاننے کے لیے لنک پر کلک کیجئے

https://aqli.epic.uchicago.edu/wp-content/uploads/2019/02/Pakistan-Report.pdf

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply