ملیر ایکسپریس وے کے لئے گھر مسمار، سندھ حکومت کی اپنے ہی وعدے اور دعوے کی خلاف ورزی۔

جس جگہ ملیر ایکسپریس وے کا قائدآباد انٹرچینج بنایا جا رہا ہے اس میں وہ پانچ ایکڑ زرعی زمین بھی شامل ہے جس کی ملکیت کے دعوے دار ایک 65 سالہ مقامی کاشت کار سائل دہقان ہیں۔ اس لیے وہ اس سڑک کی تعمیر پر ناراض بھی ہیں اور مایوس بھی۔

وہ ۲۰ فروری ۲۰۲۲ کو اتوار کے روز گیارہ بجے صبح کراچی کے شمال مشرقی ضلعے ملیر کے کمیونٹی ہال میں مقامی آبادی کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ موجود تھے۔ ان لوگوں کو سندھ کے محکمہ ماحولیات نے بلا رکھا تھا تاکہ وہ قدرتی ماحول پر ایکسپریس وے کے ممکنہ اثرات کے بارے میں اپنی آرا پیش کر سکیں۔ ان میں سے اکثر کو شکایت ہے کہ صوبائی حکومت نے اس سڑک کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بننے سے ان کی روزی روٹی براہ راست متاثر ہو گی۔ سائل دہقان نے بیان کیا کہ “حکومت ہم سے زبردستی وہ زمین لینا چاہتی ہے جس سے ہماری زندگی اور ہمارا روزگار وابستہ ہیں”۔


ملیر ایکسپریس وے کے متاثرین نے سندھ انڈِجنس رائٹس الائنس، اور ملیر ایکسپریس وے ایکشن کمیٹی نامی مقامی باشندوں کی تنظیوں کے پلیٹ فارم اور پاکستان ماحولیاتی تحفظ مؤمنٹ سمیت دیگر سول سوسائٹی کی تنظیموں (کراچی بچاؤ تحریک، گرین پاکستان کولیشن) نے بھی احتجاج کیا اور اس کی تعمیر کے خلاف متعدد احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسی قانونی اور سرکاری دستاویزات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سڑک کے لیے لی جانے والی زمین کا ایک بڑا حصہ ان کی جائز ملکیت ہے اس لیے حکومت جبراً انہیں اس سے بے دخل نہیں کر سکتی۔ سائل دہقان کے بقول “ہم کئی دہائیوں سے اس زمین کے قانونی مالک ہیں اس لیے حکومت اس کا بہتر متبادل فراہم کیے بغیر اسے ہم سے نہیں چھین سکتی”۔

لیکن حکومتی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ یہ زمین کبھی کسی کی ذاتی ملکیت تھی ہی نہیں بلکہ اسے لیز پر مقامی لوگوں کو دیا گیا تھا جسے ختم کر کے حکومت اب یہ زمین واپس لے رہی ہے۔


تتلیاں کہاں کو سفر پر جائیں؟

نجی شعبے اور سندھ حکومت کے اشتراک (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) کے تحت تقریباً ۱۶۰ ملین ڈالر کی لاگت سے بنائے جانے والا ملیر ایکسپریس وے کا افتتاح دسمبر ۲۰۲۰ میں صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے جون ۲۰۲۳ تک مکمل کر لیا جائے گا۔

چھ لین پر مشتمل اور 39 کلومیٹر طویل یہ سڑک کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے شمال مشرقی سرے پر واقع کورنگی کریک روڈ سے شروع ہوگی اور جگہ جگہ ملیر ندی کے درمیان سے چلتی ہوئی کاٹھور کے مقام پر کراچی-حیدرآباد شاہراہ سے مل جائے گی۔

ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کو اجاگر کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کی زد میں آنے والے علاقوں کا قدرتی ماحول کراچی کے تمام دوسرے علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ سرسبز اور شاداب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، ان کے مطابق، اس کی تعمیر سے ۱۹ ہزار کے قریب پودوں اور درختوں، پرندوں کی ایک سو ۷۶ اقسام اور ۷۳ طرح کی تتلیوں کی جائے افزائش کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

۳۸۸ فٹ (ایک سو میٹر) چوڑی ایکسپریس وے ملیر ندی کے متوازی اور جگہ جگہ بیچ و بیچ تعمیر کی جائے گا جس کے باعث اس کا پاٹ تنگ ہو جائے گا۔ یوں برسات کے موسم میں ندی کے ارد گرد واقع بستیوں میں سیلاب کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

ایکسپریس وے کے متاثرین کی ایکشن کمیٹی کے رکن بشیر بلوچ بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے رہائشی اور تجارتی علاقوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے ملیر کا زرعی رقبہ پچھلے ۲۰ سالوں میں ۶۰ ہزار ایکڑ سے کم ہو کر ۱۹ ہزار ایکڑ رہ گیا ہے جو اس سڑک کی تعمیر سے مزید کم ہو جائے گا۔ ان کے مطابق اس سڑک کی وجہ سے اس رقبے کو سیراب کرنے والے ۲۷ کنوئیں بھی ختم ہو جائیں گے۔

ان خطرات کی نشان دہی کرتے ہوئے ملیر سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے چھ ارکان نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ایک خط بھی لکھا ہے۔ بشیر بلوچ کے بقول اس خط میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ دیہات اور زرعی زمینوں کو بچانے کے لیے سڑک کو زمین پر بنانے کے بجائے ایک اوور ہیڈ برج کی طرح تعمیر کیا جانا چاہیے۔

سندھ انڈیجنس رائٹس الائنس کے رہنما حفیظ بلوچ اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایکسپریس وے کی تعمیر سے ملیر کے کئی دیہات دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے جن کے رہنے والے لوگ سڑک کے ساتھ لگی باڑ کی وجہ سے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جا بھی نہیں پائیں گے۔


لیکن ان کے نزدیک اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ موٹرسائیکل اور آٹو رکشا جیسی چھوٹی گاڑیوں کو اس سڑک پر چڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ “ملیر کے رہنے والے کم آمدن والے لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا”۔

اگرچہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے بعد کراچی کے انتہائی جنوب میں رہنے والے لوگوں کو شہر کے انتہائی شمالی حصے تک پہنچنے میں محض آدھا گھنٹہ لگے گا۔ لیکن کراچی میں مقیم ماہر ماحولیات توحید احمد کہتے ہیں کہ “یہ فائدہ اس نقصان کے مقابلے میں کہیں کم ہے جو ملیر کی جنگلی حیات، قدرتی ماحول اور زراعت کو پہنچے گا”۔

ملیر ایکسپریس وے کے بارے میں تمام عوامی اعتراضات کو رد کرتے ہوئے سندھ کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (Sindh Environmental Protection Agency) نے ۲۰ اپریل ۲۰۲۲ کو اس کے ماحولیاتی اثرات کے جائزے پر مبنی رپورٹ (environment impact assessment report) کو تسلی بخش قرار دے دیا جس سے اس کی تعمیر کی راہ ہموار ہو گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سڑک کے لیے مختص تمام رقم کا 15 فیصد درختوں، کھیتوں، سرسبز جگہوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنانے پر خرچ کیا جائے گا۔ اس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سڑک کی وجہ سے متاثر ہونے والے درختوں، کھیتوں اور سرسبز جگہوں کے لیے متبادل زمین فراہم کی جائے گی۔ ماحولیاتی تحفظ کے صوبائی ادارے نے اس کے متاثرین سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ انہیں ان کے نقصان کا معاوضہ دے کر متبادل جگہوں پر آباد کیا جائے گا۔

لیکن متاثرین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے سماجی کارکنوں کو ان سرکاری وعدوں اور دعووں پر اعتبار نہیں۔ کراچی کی رہنے والی وکیل عبیرہ اشفاق کہتی ہیں کہ ملیر ایکسپریس وے ایسا پہلا منصوبہ نہیں جو کراچی کے ماحول پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گا بلکہ، ان کے مطابق، پچھلے 10 سالوں میں شہر کے شمالی دیہی علاقوں میں ایسی کئی تعمیرات کی گئی ہیں جن کے مضر اثرات کوہ کھیرتھر تک پہنچ رہے ہیں جو ملیر اور لیاری جیسی کئی ندیوں کا ماخذ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “ایکسپریس وے اور بحریہ ٹاؤن جیسے بڑے تعمیراتی منصوبوں نے کراچی میں جنگلات، جنگلی حیات، آبی ذخائر، زیرآب پانی کی سطح اور فضا کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے کھوکھلے وعدوں سے نہیں ہو سکتی”۔

 

جبکے حالیہ دنوں میں ملیر ایکسپریس وے کے اطراف موجود آبادیوں کو مزید بے دخل کردیا گیا ہے اور جیسے جیسے ایکسپریس وے اپنے مکمل ہونے کے قریب جا رہی ہے ویسے مزید اطراف کی آبادیوں کو مسمار کیا جا رہا ہے واضح رہے کے صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کے ملیر ایکسپریس وے اس سال کے جون میں مکمل کی جائے گی

سائل دہقان بھی کہتے ہیں کہ یہ وعدے محض وعدے ہی رہیں گے کیونکہ صوبائی حکومت نے ماضی میں اسی طرح کے منصوبوں کے منفی اثرات کا شکار ہونے والے لوگوں کی شکایات کا کبھی کوئی ازالہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ “سندھ حکومت نے ایسے ہی وعدے اورنگی اور گجر نالوں اور سرکلر ریلوے کے متاثرین سے بھی کیے تھے لیکن انہیں ابھی تک کچھ بھی نہیں ملا”۔

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply