بلب نہیں جل رہا تو ہم بل جلا رہے ہیں۔ مہنگی بجلی، عوام سڑکوں پر۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں صارفین کو بجلی کے بل معمول سے کئی گنا زیادہ موصول ہوئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور گذشتہ مہینوں کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے، نتیجتأ عوام کو فی یونٹ بجلی اوسطاََ بچاس روپے سے ذیادہ کی مل رہی ہے۔

کراچی میں مختلف علاقوں میں زیادہ بجلی کے بل موصول ہونے کے بعد لوگ احتجاج کر رہے ہیں جبکے عوام کا کہنا ہے کے ہم یہ بل ادا نہیں کرسکتے تو یہ کاغذ رکھیں کیوں، اس لیے ہم یہ بل جلا رہے ہیں.

ایک شہری نے دی انوائیرمنٹل کو بتایا کے سولر پینل کا ایک شیشہ اس وقت تیس سے پینتیس ہزار کا ہے میں پندرہ ہزار کا بل نہیں بھر پا رہا تو سولر پینل کیسے لگاؤں۔

پاکستان ماحولیاتی تحفظ موومنٹ کے احتجاج میں شامل سندھ ہیومن رائٹس ڈیفنڈر کے رکن ثمر عباس نے دی انوائیرمنٹل کو بتایا کے اس وقت ملک گیر بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف عام آدمی احتجاج کر رہا ہے۔

یہ ماضی کی حکومتوں کے لیے ایک بڑے بنیادی انسانی مسئلہ کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے کوئی مستقل پالیسی نہ بنائی اور نہ ہی توانائی کے سیکٹر کو ترجیح دی نتیجتاً آج عام آدمی کی بجلی کے بل بھرنے کی سکت ختم ہوچکی ہے۔

تاہم وزارتِ توانائی کی جانب سے گزشتہ پارلیمان میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کے مفت یونٹس کا استعمال کرنے والوں میں موجودہ اور سابق صدور، وزرائے اعظم، جج، اعلیٰ سول اور فوجی افسران، گورنر اور ڈپٹی گورنرز اسٹیٹ بینک، چیئرمین نیب، واپڈا کے اہلکار اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے ملازمین شامل ہیں۔

ملک کے صدر کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ کو بجلی کے دو ہزار یونٹس استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کو دو ہزار اور ہائی کورٹ کے ججوں کو ایک ہزار یونٹ بجلی مفت استعمال کرنے کی قانون اجازت دیتا ہے۔

ایک اور سرکاری رپورٹ کے مطابق مختلف محکموں کے سرکاری ملازمین سالانہ نو ارب روپے مالیت کے چونتیس کروڑ بجلی کے یونٹس مفت استعمال کرتے ہیں۔

سرکاری دستاویز کے مطابق گریڈ سترہ سے اکیس کے پندرہ ہزار ملازمین ماہانہ ستر لاکھ یونٹس مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔

گریڈ ایک سے سولہ کے ملازمین تینتیس کروڑ یونٹ ماہانہ مفت بجلی استعمال کررہے ہیں جس کی مجموعی مالیت نو ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔

رواں برس مارچ میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاور ڈویژن کو گریڈ سولہ سے گریڈ بائیس تک کے سرکاری افسران کو مفت بجلی کی سہولت بند کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب پاور ڈویژن حکام کی جانب سے گزشتہ ایک سال میں لوڈشیڈنگ پر رپورٹ پبلک اکاونٹس کمیٹی میں پیش کی گئی تھی۔

کمیٹی کے چیئرمین نور عالم نے واپڈا کو مزید مالی نقصان سے بچانے کے لیے ادارے کو مفت بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ بند کرنے اور اس کے بدلے پیسے تنخواہ میں شامل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ان احکامات پر تاحال عمل در آمد نہیں ہوسکا ہے جب کہ ایسی ہی ہدایات ایک سال قبل بھی دی گئی تھیں لیکن یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔

وفاقی سیکریٹری پاور ڈویژن نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت ڈسکوز کے افسران کو فراہم کیے جانے والے مفت بجلی کے یونٹ ختم کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ واپڈا کے پرانے ملازمین کے علاوہ کسی بھی محکمے میں بجلی کے بلوں میں کوئی رعایت نہیں دی جا رہی ہے۔

اگست کے بجلی کے بلوں میں صارفین کے لیے پندرہ روپے فی یونٹ تک قیمت بڑھائی جا چکی ہے۔

حکومت نے یکم جولائی کو بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ساڑھے سات روپے تک اضافہ کیا تھا۔ لیکن اس کی مکمل وصولی نہیں ہو سکی تھی جس پر اگست میں صارفین سے دو ماہ کی یکمشت وصولی کی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک روپے اکیاسی پیسے فی یونٹ کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وصولی بھی بل کا حصہ تھی۔

اس کے بعد بجلی پر عائد ٹیکس نے بھی عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر ایک سال میں بجلی کے صارفین پر ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا بوجھ منتقل کیا گیا ہے۔

ایک عام صارف کا بل جو پہلے ایک ہزار سے دو ہزار روپے کے درمیان تھا وہ اچانک آٹھ ہزار سے دس ہزار روپے اور بعض کیسز میں اس سے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔

پاکستان میں افراطِ زر کی بلند شرح کے سبب عوام کو بہت زیادہ مہنگائی کا سامنا ہے۔ ایسے میں مہنگی بجلی اور مہنگا فیول عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔

بجلی کے بل کیسے کم ہوسکتے ہیں؟

اس بارے میں مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت بجلی کی زائد قیمت کی بڑی وجہ کیپسٹی پیمنٹس اور بھاری ٹیکس ہیں۔ ان میں کمی سے عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔

ماہرِ معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اس وقت بجلی کے بلز میں اکتیس فی صد مختلف حکومتی ٹیکس ہیں۔ اگر ان ٹیکسوں میں کمی کی جائے تو بجلی کے بل کم ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ حکومت ان کم ہونے والے ٹیکسز کو ڈائریکٹ ٹیکس لگا کر پورا کرسکتی ہے۔

معاشی تجزیہ کار خاقان نجیب نے نجی نشریاتی ادارے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوں میں ایک حصہ اٹھارا فی صد جی ایس ٹی کا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے تحت اٹھارا فی صد جی ایس ٹی بلوں پر وصول ہو رہے ہیں جو بہت زیادہ ہے۔ اگر اس بارے میں آئی ایم ایف حکام کے ساتھ بات چیت کی جائے تو اس میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

بلب نہیں جل رہا تو ہم بل جلا رہے ہیں۔ عوام  |   تحریر اور فوٹوگرافی: فیصل رحمان

ملک بھر میں مہنگی بجلی کے خلاف مظاہرے

مہنگی بجلی اور زائد بلوں کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی میڈیا میں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر مظاہرے ایسے ہی جاری رہے اور عوام نے بل جمع نہ کرائے تو حکومت کی معاشی مشکلات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔

اس وقت مظاہروں کی وجہ سے بجلی کمپنیاں اور ان کے ملازمین بھی خوف کا شکار ہیں۔ کراچی، اسلام آباد، ملتان، لاہور، پشاور اور اور دیگر تقسیم کار کمپنیوں نے اپنے عملے کی حفاظت کے لیے نگراں صوبائی حکومتوں سے پولیس کی سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

ملتان سمیت بعض علاقوں میں بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو سرکاری گاڑیاں دفاتر سے باہر لے جانے سے روک دیا گیا ہے کہ کہیں وہ عوام کے غیض و غضب کا نشانہ نہ بن جائیں۔

اب لوگ سیاستدانوں کے گھروں کے باہر اور سرکاری دفاتر کے باہر احتجاج کرنا شروع ہو گئے ہیں۔

کیا نگراں حکومت اقدامات کر رہی ہیں؟

پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کے متعلقہ اداروں کو آئندہ دو روز میں بجلی کے زائد بلوں میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات مرتب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسرشاہی ان کے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کرے۔

نگراں وزیرِ اعظم نے اتوار کو بجلی کے بلوں کے خلاف جاری احتجاج کے سبب خصوصی اجلاس کی صدارت کی جس میں توانائی و بجلی کے نگراں وزراء سمیت متعلقہ وزارتوں کے حکام شریک ہوئے اور جولائی کے بجلی کے بلوں میں اضافے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

نگراں وزیرِ اعظم نے اجلاس میں کہا کہ جلد بازی میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے ملک کو نقصان ہو۔ ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن سے ملکی خزانے پر اضافی بوجھ نہ ہو اور صارفین کو سہولت ملے۔

متعلقہ وزارتیں اور متعلقہ ادارے مفت بجلی حاصل کرنے والے افسران اور اداروں کی مکمل تفصیل فراہم کریں۔

اس وقت سوشل میڈیا پر بھی مہم بھی چل رہی ہے جس میں واپڈا سمیت کے الیکٹرک اور سرکاری اداروں میں مفت بجلی استعمال کرنے کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ بیورو کریسی اور واپڈا کے افسران کے بل عوام کیوں ادا کریں؟

نوٹ: کیا شمسی توانائی کا حصول کراچی سمیت ملک بھر کے شہریوں کے لیے مشکل ہے دی انوائیرمنٹل کی تفصیلی رپورٹ جلد شائع کی جائے گی

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply