,

ملک میں شمسی توانائی کی ترقی میں حائل روکاوٹیں. پائیدار پالیسی سازی کی ضرورت۔

پاکستان کے وسائل میں گرم و سرد موسموں کے علاوہ شدید بارشوں والے مون سون ایام، اور خشک صحراؤں کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے بڑے دریا بھی موجود ہیں ہیں۔ اس ملک میں سارا سال سورج کی روشنی دستیاب ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بہنے والے دریاؤں پر بھی زیادہ چھوٹے ڈیم بنانے کے بجائے بڑے ڈیم بنانے کو ترجیح دینے کی پالیسی آج بھی مستعمل ہے۔ اس وقت بھی دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کا عمل شروع ہے۔ مبصرین کے مطابق متبادل توانائی کے منصوبے اب بھی خواب دکھائی دیتے ہیں

بجلی کے متبادل ذرائع اور مشکلات

تمام تر قدرتی نوازشات کے ساتھ ساتھ محض ۱.۱۶ فیصد بجلی کے حصول کا ذریعہ شمسی توانائی ہے۔ بجلی کی ملکی ضروریات کو چونسٹھ فیصد زمین سے حاصل ہونے والے ایندھن سے پورا کیا جاتا ہے۔ بقیہ بجلی ستائیس فیصد پانی کی قوت اور پانچ فیصد جوہری توانائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ متبادل توانائی چار فیصد بجلی کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔

اس پر معاشی ماہرین کا اتفاق ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے پاکستان پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن اس کے باوجود متبادل توانائی کے بھاری مواقع دستیاب ہیں لیکن ناموافق ماحولیاتی حربے اب بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اسلام آباد حکومت نے چینی معاونت سے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ایک بڑے منصوبے کی منظوری دی ہے۔ منصوبے کی تکمیل سے ساڑھے چھ ہزار سے زائد میگا واٹ بجلی میسر ہو گی۔

دو ہزاز اکیس میں سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ملک میں ساٹھ فیصد بجلی متبادل توانائی کے ذرائع سے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے سن دو ہزار تیس تک چوبیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے شمسی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے یونٹس لگانے ہوں گے۔

اس وقت متبادل توانائی یونٹس صرف پندرہ میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ ماحول دوست کارکنوں کا خیال ہے کہ ملک شمسی توانائی کے پلانٹ لگانے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے زیادہ سیاسی حمایت کی اشد ضروری ہے۔

ایک ماحول دوست کارکن یاسر (دریا) حسین کا کہنا ہے کہ متبادل توانائی سے انتیس سو گیگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طاقتور بیوروکریٹس، پالیسی ساز اہلکار اور ہائیڈرو پاور لابیز اصل میں شمسی توانائی کے دائرے کو پھیلانے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یاسر دریا کے مطابق چین سے حاصل کیا گیا ایک بوسیدہ سولر انرجی پلانٹ صوبہ پنجاب سمیت سندھ کے شہر تھر میں نصب کر کے کہا جا رہا ہے کہ ملک شمسی توانائی پیدا کرنے کے لیے سازگار نہیں۔

انرجی سیکٹر سے وابستہ ایک پاکستانی خاتون ماہر غزالہ رضا نے دی انوائیرمنٹل کو بتایا کہ سولر انرجی کے راستے میں کئی مسائل حائل ہیں اور ان میں سب سے اہم ایک شمسی توانائی کی فیلڈ بنانے کے لیے مناسب علاقے کا حصول ہے۔ ماہرین کے مطابق سولر پینلز ایک بڑے علاقے پر بچھائے جاتے ہیں اور یہ ملکی زراعت کے لیے بھی مفید نہیں ہو سکتا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ متبادل توانائی کے حوالے سے سیاسی حلقے کی عدم خواہش اور کمزور حکومتی ارادوں نے بھی سرمایہ کاری کی توقعات کو کمزور کیا ہے۔

سولر پینل کی ٹیکنالوجی پر عدم بھروسہ

صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سولر پینلز کے استعمال کے شروع نہ ہونے کی ایک وجہ یہ خیال ہے کہ ٹیکنالوجی فطری طور پر ناقابل بھروسہ ہے اور اس میں خرابی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شمسی پینلز پر نمی، گندگی اور بارش کے اثرات، اس کے علاوہ ان کی بیٹریوں کے توقع سے پہلے ختم ہونے کے امکانات لوگوں کو صاف توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کرنے سے روکتے ہیں جس کے لیے زیادہ تر معاملات میں ابتدائی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

“لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سولر پینل آف دی شیلف اشیاء نہیں ہیں۔ شمسی ٹیکنالوجی ایک ‘انجینئرڈ سلوشن’ ہے، جس کی صلاحیت متوقع بوجھ کے مطابق ہونی چاہیے”. کراچی میں قائم کمپنی گرین سینٹر، جو صنعتی، تجارتی، اور رہائشی صارفین کو توانائی کے موثر حل فراہم کرتی ہے، کے ڈائریکٹر شاف محبوب نے کہا کی توانائی کے آڈٹ اور توانائی کے انتظام کے آلات کی فروخت پاکستانی مارکیٹ میں مشکل سے ملتے ہیں۔

محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان میں متبادل توانائی کا شعبہ مکمل طور پر غیر منظم ہے۔ “آپ کو متبادل توانائی کمپنی قائم کرنے کے لیے کسی سرکاری ادارے سے سرٹیفیکیشن یا منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی سرکاری اتھارٹی کا کوئی بھی انسپکٹر آپ کی مصنوعات اور خدمات کے معیار کو جانچنے کے لیے کبھی بھی آپ کو وزٹ نہیں کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ نگرانی اور کوالٹی کنٹرول کی کمی کے نتیجے میں صارفین کا شمسی ٹیکنالوجی پر اعتماد ختم ہو گیا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ ضابطے کی کمی ہے کہ پاکستان میں ناقص معیار کے سولر پینل فروخت ہو رہے ہیں۔ اچھے معیار کے، کوریا سے تیار کردہ سولر پینل کی قیمت چار سو روپے فی واٹ تک ہو سکتی ہے۔

اگرچہ ایسے پینلز کی اوسط عمر بیس سال ہوتی ہے، لیکن محبوب کہتے ہیں کہ ان کی کارکردگی اس بات پر بھی منحصر ہے کہ وہ روزانہ کتنے گھنٹے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم سولر پینلز میں استعمال ہونے والی بیٹری کی اوسط زندگی چار سال ہے۔

طویل مدت میں سولر پینلز سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت دس روپے فی یونٹ سے کم ہے، جو کہ نیشنل گرڈ کی طرف سے فراہم کی جانے والی بجلی کی شرح سے کم ہے۔

سولر پینل کلین انرجی سلوشن کا حصہ ہیں جو گرین سینٹر اپنے صارفین کو ان کے گھر، دفتر یا فیکٹری کا انرجی آڈٹ کرنے کے بعد فراہم کرتا ہے۔ کم توانائی والے ایئر کنڈیشننگ سلوشنز، لائٹ ایمیٹنگ ڈائیوڈ (ایل ای ڈی) کی تنصیب، توانائی کی بچت کرنے والی لائٹس اور لیمپ، قبضے کے سنسر اور ناکارہ آلات کی تبدیلی گرین سینٹر کے کام میں شامل ہے۔

گرین سینٹر کے انجینئر اس جگہ کا ڈیزائن استعمال کرتے ہیں اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے ایک انتہائی موثر صاف توانائی کا منصوبہ تیار کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، محبوب نے حال ہی میں ایک رہائشی یونٹ کے لیے کیے گئے انرجی آڈٹ کے مطابق بتایا کہ صاف توانائی میں انتیس لاکھ روپے کی یک وقتی سرمایہ کاری کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں کم از کم پندرہ لاکھ روپے کی سالانہ بچت ہونے کا امکان ہے۔

گرین سینٹر ملائیشیا سے درآمد کیے جانے والے موثر ایئر کنڈیشننگ یونٹس، پاکستان میں فروخت کیے جانے والے عام یونٹوں کے مقابلے میں چالیس فیصد کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ محبوب کہتے ہیں کہ ان کی قیمتیں عام ایئر کنڈیشننگ یونٹوں سے دگنی ہیں، لیکن ابتدائی سرمایہ کاری تھوڑے ہی عرصے میں ادا ہو جاتی ہے۔

محبوب کا کہنا ہے کہ سولر واٹر ہیٹر کے شعبے میں ان کے پچھتر فیصد صارفین گھریلو شعبے سے ہیں۔ ایئر کنڈیشنگ اور موثر روشنی کے حصوں میں، گھریلو صارفین بالترتیب چالیس فیصد سے اور پچاس فیصد کے درمیان ہیں ۔

“یہ یورپ نہیں ہے جہاں لوگ ماحولیاتی تحفظات کے لیے متبادل توانائی کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں، لوگ بنیادی طور پر ان کی لاگت کی تاثیر کی وجہ سے سولر پینل لگاتے ہیں،” انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سولر پینلز کی قیمتیں گزشتہ چند سالوں میں پچاس فیصد سے زیادہ کم ہوئی ہیں۔

ایک ماہر اقتصادیات شاہدہ وزارت کا خیال ہے کہ متبادل توانائی کا ابتدائی خرچہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک دوسری ماہر اقتصادیات عذرا طلعت سعید کا خیال ہے کہ سولر انرجی میں سرمایہ کاری اُس وقت تک نہیں کی جانی چاہیے جب تک درپیش سبھی فیکٹرز پر پوری طرح غور مکمل نہیں ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی ماحول کے لیے بہتر ہے لیکن ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرانے سے پاکستاں کا چینی اور امریکی ٹیکنالوجیز پر انحصار کم ہو جائے گا، جو شاید قابل قبول نہیں ہو گا۔

سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کی منظوری دیتے ہوئے اس کی جلد تعمیر کی ہدایت کی تھی۔ سابق وزیرا عظم کے اعلان کے مطابق ملک میں دس ہزار میگا واٹ بجلی شمسی توانائی کے ذرائع سے حاصل کی جائے گی۔

وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعلان ملک میں مہنگے درآمدی ایندھن کے بجائے سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا حصہ تھا۔

پاکستان میں درآمدی فرنس آئل، کوئلے اور آر ایل این جی سے بنائی جانے والی بجلی اس وقت ملک میں انرجی مکس کا ساٹھ فیصد ہے اور عالمی مارکیٹ میں ان تینوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے پاکستان میں بجلی بنانے کی لاگت میں اضافہ ہوا جسے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔

جولائی اور اگست میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی زیادہ لاگت کی وجہ سے بجلی کے بل بہت زیادہ آئے جس کی وجہ سے نگراں حکومت کو تنقید کا سامنا ہے اور عوام ملک گیر احتجاج کر رہی ہے۔

شمسی توانائی کے شعبے درپیش روکاوٹیں

حکومتی ادارے الٹرنیٹ انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ یعنی قابل تجدید متبادل توانائی کے ترقیاتی ادارے کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ملک میں چار سو میگا واٹ شمسی توانائی قائد اعظم سولر پاور پارک میں لگے چار پراجیکٹس سے نیشنل گرڈ میں فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ تیس میگاواٹ کے دو اور چھوٹے منصوبوں سے شمسی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔

قابل تجدید متبادل توانائی شعبے کی ماہر ہنیہ اسعاد نے بتایا کہ ان چار سو میگا واٹ کے علاوہ سو میگا واٹ کے-الیکٹرک شمسی توانائی سے حاصل کرتا ہے تاہم وہ نیشنل گرڈ میں شامل نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں قائد اعظم سولر پاور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت لگایا گیا۔

پاکستان میں سولر پاور کے شعبے میں پیش رفت نہ ہونے کے بارے میں ہنیہ اسعاد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے۔ ’پاکستان کے بہت بڑے حصے میں سورج کی روشنی پورا سال موجود ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ملک میں شمسی توانائی کے شعبے میں ترقی نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ حکومتی سطح پر پالیسی میں تسلسل نہ ہونا ہے۔ ’اس کی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہو سکی اور نہ ہی اس کے بے تحاشا پوٹینشل کو ابھی تک قابل عمل بنایا جا سکا ہے۔‘

پائیدار ترقی کی پالیسی کے ادارے (ایس ڈی پی آئی) میں ریسرچ فیلو اور انرجی شعبے کی ہیڈ ڈاکٹر حنا اسلم نے اس حوالے سے بتایا کہ شمسی توانائی کے شعبے کی ترقی میں سے بڑی رکاوٹ ریگولیٹری مشکلات اور بیوروکریٹک رکاوٹیں ہیں۔ ملک میں بجلی کا نیشنل گرڈ سولر ٹیکنالوجی سے مطابقت بھی نہیں رکھتا۔

’ملک میں سولر آلات کی لوکلائزیشن پر بھی کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے مقامی طور پر ان کی تیاری کے ذریعے اس شعبے کو ترقی دینے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔‘

انھوں نے کہا کہ سولر کے شعبے کی ٹیرف پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ اس کے ذریعے اس شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کو ملک میں لایا جا سکے۔

قابل تجدید توانائی یعنی رینیوایبل انرجی ڈویپلرز کے مصطفیٰ امجد کا کہنا ہے کہ قابل تجدید توانائی پالیسی پہلی بار سن دو ہزار دو میں متعارف کرائی گئی تھی تاہم اس پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔

’شمسی توانائی کے شعبے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو اس کا حکومتی ترجیحات میں شامل نہ ہونا رہا ہے۔ مثلاً گذشتہ حکومتوں میں جب گیس سستی تھی تو زیادہ تر پلانٹ گیس پر لگائے گئے اور ان سے بجلی کی ضرورت پوری کی گئی۔ حکومتوں کی جانب سے شمسی توانائی کے ذریعے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ اسی طرح جب سی پیک کے تحت قائد اعظم سولر پارک بنایا گیا تو منصوبے کی ورکنگ اتنی اچھی نہیں تھی اور نہ ہی اس میں سارے پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا جس کی وجہ سے اس کی آؤٹ پٹ کم رہی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پلان تھا تاہم اس سے چار سو میگاواٹ پیدا کیا جا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں یہ منصوبہ لگایا گیا وہاں گرد و آلود سے انھیں محفوظ رکھنے کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ’اس کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد مطلوبہ سطح تک نہ پہنچ سکی۔‘

ماہر توانائی مصطفیٰ کرد نے بتایا کہ شمسی توانائی کے سلسلے میں جو اب تک بڑی رکاوٹ سامنے آئی ہے وہ حکومت کی جانب سے اس کے پلانٹ لگانے کے لیے آکشن کا پراسس متعارف کرانا تھا تاہم اس کے لیے قواعد و ضوابط ابھی تک جاری نہیں کیے جا سکے جس کی وجہ اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہوسکی۔

حکومت کی جانب سے ملک میں شمسی توانائی کے فروغ کے لیے سولر پینلز کی درآمد پر ٹیکس پر چھوٹ ہے۔ تاہم دس ہزار میگاواٹ بجلی کے شمسی توانائی کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑے گی کیونکہ آن گرڈ شمسی توانائی کے آکشن کے قواعد کو ابھی حتمی صورت نہیں دی جا سکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کے منصوبے میں آکشن طریقہ کار میں کمپنیوں سے بڈز طلب کی جاتی ہیں کہ وہ اتنی بجلی پیدا کریں گی جو حکومت لے گی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں قواعد کو ابھی تک طے نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے اس شعبے میں پیش رفت نہیں ہو رہی۔

نتیجتاً ماہرین کہتے ہیں کے ملک میں قابل تجدید توانائی کے کے شعبوں میں کام کی بہت ضرورت ہے اور خاص طور پر حکومتی سطح پر ایک طویل پالیسی ہی ہمیں حالیہ بجلی کے بحران سے نجات دے سکتی ہے جبکے دنیا بھر میں شمسی توانائی بہت ترقی کرچکی ہے

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply